Friday, August 26, 2011

اختتام کا آغاز ....... 2012


اختتام کا آغاز ....... 2012

حضرت دانیال علیھ السلام بنی اسرائیل کے مقدس پیغمبر تھے. جب یہودیوں کی بداعمالی کی پہلی سزا کے طور پر الله تعالی نے بخت نصر بادشاہ کو مسلط کیا اور اس نے عراق سے اکر یروشلم کو تاراج کر ڈالا. ہیکل سلیمانی کی اینٹ سے اینٹ بجادی. تورات کے نسخے جلا ڈالے. یہود ک...ا قتل عام کیا شہر کو ویران و برباد کیا. باقی بچے کھچے افراد کو اپنے ساتھ بابل لے جا کر غلام بنا لیا. تو جس زمانے میں یہود غلامی کی زندگی گزر رہے تھے تو الله تعالی نے ان پر رحم کھا کر انبیاء بھیجنے شروع کیے. انہی میں سے اک حضرت دانیال علیھ السلام ہیں. حضرت دانیال علیھ السلام اپنی شخصیت و کردار میں حضرت یوسف علیھ السلام سے گہری مماثلت رکھتے ہیں. بنی اسرائیل کے ان دونو پیغمبر کو آغاز میں غلام بنا لیا گیا تھا اور پھر اک اجنبی ملک میں اجنبی و مظلوم شخص کی حیثیت میں الله تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کی جسمانی پرورش اور روحانی تربیت کی حتی کہ وہ پیغمبر بننے کے ساتھ وہ دنیوی اعتبار سے بھی بڑے عہدوں تک پہنچے. دونو کو الله تعالی نے خوابوں کی تعبیر کا خصوصی علم دیا تھا. وہ مشکلات میں بھی لوگو کو خدا واحد کی طرف بلاتے تھے. جبر و ظلم کے ماحول میں کلمہ حق بلا خوف و جھجک کہتے رہے. دونو پر فتنہ پردرازوں نے تہمت لگی جس کی نوعیت الگ الگ تھی. لکن الله تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کی پاکیزگی اور پاکدامنی ایسے دلائل سے ظاہر پرمی کے دشمن بھی انکار نہ کر سکے اور معافی مانگنے پر مجبور ہوگئے.   بخت نصر کے بعد "نبوشانے زار" بادشاہ ہوا. اس نے اک خواب دیکھا جس کا مطلب سمجھنے میں وہ اتنا الجھا کہ پریشن ہو کر رہ گیا. اس نے ملک کے تمام مشہور نجومیوں، جادوگروں، کاہنوں اور مستقبل کا حال بتانے والوں کو جمع کیا اور تعبیر پوچھی. جب علم کا بے جا دعوی کرنے والے سب عجز آگے تو کسی نے اسے بنی اسرائیل کے دانشمند اور صاحب فہم نوجوان دانیال کی اطلا ع دی. اس نے ان کو بلا بھیجا. حضرت دانیال علیھ السلام نے الله تعالی سے دعا کی اور الله نے ان کے دل میں خواب کا صحیح صحیح مطلب القا کریا.   نبوشانے زار کے اس خواب میں اس وقت کے بادشاہ سے لے کر قیامت تک انے والے مختلف ادوار، حکومتوں اور بادشاہوں کے متعلق جو پیشن گویاں کی گئی ہیں، وہ حیرت انگیز طور پر درست ثابت ہوئی ہیں. ماسواۓ ان چند باتوں کے جن میں یہودیوں نے تحریف کردی ہے اور اسے توڑ مروڑ کر کہیں اور منطبق کرنے کی ناکام کوشش کی ہے. حضرت دانیال علیھ السلام کے کلام میں نبی آخر الزمان صلی الله علیھ وسلم کے مطابق واضح پیشن گوئی ہے اور یہ بھی ہے کہ ایک ابدی پیغم اور ہمش قائم رہنے والا دین ظاہر ہوگا.   اب اگے چلنے سے پہلے ایک واقعہ بیان کرتے چلیں جسے امام بیہقی، ابن ابی الدنیا اور دیگر محدثین نے بیان کیا ہے.   حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور میں (تستریا) "تسطور" نامی شہر فتح ہوا تو فاتح فوج میں شامل صحابہ و تابعین نے وہاں صحابہ کا مزار دریافت کیا. اپ کا جسم مبارک ایک تابوت میں بالکل اصلی حالت میں بغیر کسی قسم کی تبدیلی و تغیر کے موجود تھا. ان کے سر پر کپڑے کا ایک خط تھا جس پر اجنبی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا. دریافت کنندہ جماعت میں جن تابعین کے نام ہیں ان میں ابو العالیہ اور معترف بن ملک مشہور ہیں. یہ حضرت تحریر لے کر سیدنا حضرت عمر رضی الله عنہ کی خدمت میں حاضر ہوے. اپ نے مشہور تابعی حضرت کعب احبار رحمتہ الله علیھ (جو پہلے اہل یہود میں سے تھے اور سچا اسلام لے اے تھے. الله ان سے رضی ہو) سے یہ تحریر پڑھ کر عربی میں ترجمہ کرنے کی درخواست کی. حضرت ابو العالیہ رحمتہ الله علیھ فرماتے ہیں کہ اس ترجمے کو پڑھنے والا پہلا شخص میں تھا اس میں درج تھا کہ "تمہاری تمام تاریخ اور معاملات ، تمہاری تقریر کی سحر آفرینی اور بہت کچھ جو ابھی واقع ہونے والا ہے" [البیہقی، دلائل النبوت: باب صفتہ رسول الله صلی الله علیھ وسلم فی التورت و الانجیل: ٣٨١/١، البدیتھ و النھا یتھ ٤٠/٢]   اب ہم اصل واقعے کی طرف لوٹتے ہیں،   بادشاہ نے حضرت دانیال علیھ السلام کو بلا بھیجا. جب یہ اس کے پاس پہنچے تو اس نے کہا " میں تیرے بڑے میں سنا ہے کہ الہوں کی روح تجھ میں آتی ہے اور نور و دانش و کمال حکمت تجھ میں ہیں. حکیم اور نجومی میرے حضور حاضر کیے گے تا کہ اس تحریر کو پڑھیں اور اس کا مطلب بیان کریں لکن وہ اس کا مطلب نہیں بیان کرسکے اور میں نے تیرے بڑے میں سنا ہے کہ تو تعبیر اور حل مشکلات پر قدر ہے. پاس اگر تو اس کا مطلب بتایگا تو تو ارغوانی خلعت پیگا، اور میں گردن میں زریں کا طوق پہنایا جایگا اور تو مملکت کے تیسرے درجے کا حکمران ہوگا. تب دانیال علیھ السلام نے بادشاہ کو جواب دیا "تیرا انعام تیرے پاس رہے اور اپنا صلہ کسی دوسرے کو دیدے تو بھی میں بادشاہ کے لئے یہ تحریر پرہنگا اور اس کا مطلب بتاونگا"   [تورات، دانیال، ب ٥، آیت ٣،١٨]   اس کے بعد بادشاہ نے خواب سنایا اور حضرت نے اس کی تعبیر بتائی . ان میں دنیا کی تاریخ کے مختلف حکومت کے آغاز و انجام کے متعلق پیشن گوئیاں ہیں. ان میں سے جس پیشن گوئی کا تعلق ہمارے زمانے میں ہزاروں سال بعد اک خاص حکومت کے قیام سے ہے. اس کا نام انہوں نے "نفرت کی ریاست" اور "گناہوں کی مملکت" رکھا ہے. اس ریاست کے قیام سے دنیا کے انجام کا آغاز ہوگا اور اس میں گناہوں کی بھر مار سے یہ آغاز اپنے انجام کی طرف بڑھےگا اور یہی وقت دو مقدّس روحانی شخصیتوں (جناب مہدی اور حضرت عیسی علیھ السلام ) اور دو بڑے فتنے (دجال اور یاجوج ماجوج) کے ظہور کا وقت ہوگا.   حضرت دانیال علیھ السلام کی اس پیشن گوئی کے جس حصّے سے ہمیں دلچسپی ہے وہ یہ ہے   "شمالی بادشاہ کی جانب سے فوجیں تیار کی جائینگی اور وہ محترم قلعے کو ناپاک کردینگی، پھر وہ روزانہ کی قربانیوں کو چین لینگے اور وہاں نفرت کی ریاست قائم کرینگے"  اس عبارت میں محترم قلعے کو ناپاک کرنے سے مرد مسجد اقصی پر یہود کا قبضہ اور وہاں خنزیر کے سموسوں کے ساتھ شراب نوشی ہے. روزانہ کی قربانیوں کو چھیننے سے مرد نمازوں پر پابندی ہے اور نفرت کی ریاست سے مرد اسرائیلی ریاست ہے. یہ ریاست کیسے قائم ہوگی؟؟؟ اس کے کرتوت کیا ہونگے؟؟ ملاحظه فرمائیں......   اور یہ افواج اس کی مدد کرینگی اور وہ محکم مقدس کو ناپاک اور دائمی قربانی کو موقوف کرینگے اور اجاڑنے والی مکروہ چیز نصبکرینگے اور وہ عہد مقدس کے خلاف شرارت کرنے والوں کو برگشتہ کرے گا لکن اپنے خدا کو پہچاننے والے تقویت پا کر کچھ کر دکھاینگے [تورات، ص ٨٤٦...... دانیال، ب ١١، آیت ٣١،٣٢]   یہ ریاست کب قائم ہوگی؟؟؟؟؟ یہ سوال ہماری بھس کا اہم ترین سوال ہے. اس پر ہم عرب علما کی کی تحقیق کے حوالے سے غور کرتے ہیں. اس کی تحقیق کا حوالہ اگے آرہا ہے.....   حضرت دانیال علیھ السلام فرماتے ہیں پھر میں نے دو مقدس غیبی آوازوں کو کہتے سنا"یہ معاملہ کعب تک اس ترہان چلتا رہیگا لہ میزبان اور مقدس مقام کو قدموں تلے روند دیا جاۓ" اس پر دوسری آواز نے جواب دیا دو ہزار تین سو دنو تک کے لئے. پھر یہ مقدس مقام پاک کردیا جایگا"   [تورات: ص ٨٤٦، دانیال: ب ٨، آیت ١٣،١٤]   اس پیشن گوئی سے معلوم ہوا کہ نفرت کی ریاست ٢٣٠٠ سال بعد قائم ہوگی. کس لمحے سے ٢٣٠٠ سال بعد؟؟؟؟ یہ ہم اگے چل کر بتاینگے.. پہلے آخری پیشن گوئی جس سے یہ پتا چلیگا کہ یہ ریاست کعب تک رہیگی......   اگرچہ میں نے فرشتوں کی یہ بات سن لی مگر میں اسے سمجھ نہ سکا. چناچہ الله سے دعا کی "اے الله! کھیل کس طرح ختم ہوگا؟ الله نے جواب دیا "دانیال اپنے کام سے کام رکھو،الفاظ پر قفل چڑھا دے گے ہیں اور معاملات پر مہر لگا دی گئی ہے. اب آخری وقت انے پر سارا راز فاش ہوگا جس دیں کہ قربانیاں چھین لی جاینگی اور نفرت کی ریاست قائم کردی جاۓگی . اس کے بعد سے ایک ہزار دو سو نوے (١٢٩٠) دیں باقی رہ جاینگے. مبارک ہیں وہ لوگ جو ایک ہزار تین سو پینتیس (١٣٣٥)کے اختتام تک پوھنچ جایں گے. لکن (اے دانیال!) تم اپنا کام دنیا کے اختتام تک کرتے رہو. تمھیں آرام دیا جایگا   [تورات: ص ٨٤٧ ، دانیال: ب ٨، آیت ١٣،١٤]   عیسائی اور یہودی شارحین یہاں پہنچ کر تذبذب کا شکار ہوجاتے ہے، انہیں سمجھ نہیں آتا کہ اس میں وقت کا تعین سے کیا مراد ہے؟؟؟ کیونکہ دنیا میں کوئی ایسی ریاست نہیں جو 2300  دن بعد قائم ہوئی اور محض ٤٥ دن قائم رہنے کے بعد ختم ہوگئی ہو (1335  - 1290 = 45   مگر وہ تورات ہی سے مدد لے لیں اور آئنہ دیکھنے سے نہ دریں تو تورات میں دنو سے مراد سال لیا جاتا ہے . مثلا حزقیل میں ہے "میں نے تمہارے ایک دن کو ایک سال کے برابر کردیا" لہٰذا اس آیت میں ٤٥ دن سے مراد 45  سال ہیں. اب پیشن گوئی کے مطابق اس ریاست کا قیام 2300  سال بعد ہوگا. تورات اور انجیل کے شارحین کے مطابق ان سالوں کا آغاز اسکندر اعظم کے ایشیا فتح کرنے سے ہوتا ہے جو کہ 333  قبل مسیح ہے. چناچہ نفرت کی ریاست کا قیام 333 قبل مسیح کے 2300   سال بعد ہوگا (2300 -333 =1967)یعنی 1967  میں. یہی وہ سال ہے جس میں اسرائیلی فوج القدس میں داخل ہوئی اور مسجد اقصی کی ہولناک آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا . اسرائیل اگرچہ کہ 1968  میں بنا لکن القدس جس تک رسائی یہود کا اصل مقصد ہے وہ 1967   میں اسرائیلوں کے قبضے میں گیا. اب اگر یہ ریاست اپنے قیام کے 45 سال بعد تباہ و برباد ہوتی ہے اور اس کی بربادی حضرت عیسی علیھ السلام اور حضرت مہدی رضی الله عنہ کے مجاہدین کے ہاتھوں ہوگی اور یہ دجال اور گستاخ یہودیوں کے کلی خاتمے پر ختم ہوگی تو پھر عصر حاضر کے بعض محقق مثلا مشہور سعودی علم ڈاکٹر سفر بن عبدلرحمن الحوالی کا کھبہ ہے کہ (1967 +45 =2012 )کے فارمولے سے اس ریاست کا اختتام ......... یا اختتام کا آغاز ..... کا زمانہ 2012 کے اس پاس کا بنتا ہے .... واللہ عالم بالصواب ....    سعودی علم ڈاکٹر سفر بن عبدلرحمن الحوالی کہتے ہیں یہ کوئی حتمی سال نہیں ہے. ہاں اگر یہود ہم سے شرط لگانا چاہیں جیسے کہ اہل  قریش نے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سے شرط لگائی تھی تو ہم بلاتردید کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی شرط ہار جاینگے... [یوم الغضب: ترجمہ رضی الدین سید ، ص ١٧٤]     ڈاکٹر صاحب کی یہ تحقیق کوئی قطعی بات نہیں ہے... ایک تقریبی اندازہ ہے ...قطعی بات یہ ہے کہ انسان زندگی بھر اسلام پر عمل پیرا اور اہل اسلام کے لئے جدوجہد کرتا رہے تاکہ جب موت اے تو اس کے پیچھے اتنا کچھ ہو کہ مرنے کے بعد اس کے کام اے......اس طرح کی تحقیق کا مطلب یہ ہرگز نہیں لینا چاہیے کہ چند سالوں میں کچھ نہ کچھ ہو کر رہیگا لہذا غفلت اور بے توجہی کے چند دن اور گزر جانے دیں، حضور اکرم صلی الله علیھ وسلم دجال کا ذکر اس طرح کرتے تھے کے صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین سمجھتے تھے کہ درختوں کے قریبی جھنڈ میں دجال موجود ہے.... جبکہ اپ صلی الله علیھ وسلم کو علم تھا کہ یہ زمانہ قیامت کہ قرب کا ہے. اپ صلی الله علیھ وسلم کی غرض یہ ہوتی تھی کہ مسلمان عملی زندگی کی طرف متوجہ ہوں.. غلبہ اسلام کے لئے تیار رہیں اور غفلت یا لذت میں پڑ کر الله اور آخرت کو فراموش نہ کر بیٹھیں.... یہی مقصد اس طرح کی تقریبی پیشن گویوں کا ہے... یہ کہ الله کی طرف رجوع، آخرت کی تیاری اور باطل کے خلاف جدوجہد کا داعی اور محرک ہے. ان کا کچھ اور مطلب لینا یا ان کو حتمی سمجھ کر ہاتھ پاؤں چھوڑ کر بیٹھ جانا کم فہمی یا کج فہمی ہوگی. الله تعالی ہم سب کو قلب سلیم اور عقل سلیم عطا فرماے

No comments:

Post a Comment